غزل
کسی کا بھی دل نہ دکھا کہ خدا دیکھ رہا ہے
کچھ نہیں ہے اسی سے چھپا کہ خدا دیکھ رہا ہے
کھالی ھاتھ آیا تھا کھالی ھاتھ جاٸیگا تو
خود کو اتنا معتبر نہ بنا کہ خدا دیکھ رہا ہے
حوا کی بیٹی بنی ہے آج تیرے لیے کھلونا
اپنے ہی خون کو کھلونا نہ بنا کہ خدا دیکھ رہا ہے
جب کچھ نہ تھا تو مفلسی جب سب ملا تو ظلمت
آدم کے بیٹے آدم ذات کو نہ ستا کہ خدا دیکھ رہا ہے
زندگی گزار مت زندگی میں سیکھ لے تھوڑا جینا
بھلاٸی کر تیرا بھی ھوگا بھلا کہ خدا دیکھ رہا ہے
نفرت کی زنجیریں توڑ کہ محبت ہے تیری فطرت
نفرت کی آگ میں خود نہ جلا کہ خدا دیکھ رہا ہے
اشرف المخلوقات خدا نے کیا ہے تیرا رتبہ بلند
رتبہ دیکھ خود کو انسان بنا کہ خدا دیکھ رہا ہے
کر کے آٸے تھے جو وعدہ تم خدا کے روبرو
اپنے وعدے کو اب یوں نہ بھلا کہ خدا دیکھ رہا ہے
سجدہ ایسا کر کہ سجدے میں خدا کو دیکھ
ورنہ خود کو تو اتنا بتا کہ خدا دیکھ رہا ہے
مٹی سے بنا ہے تو آخر مٹی ہی بن جاٸیگا ”ضمیر“
کسی کام کی نہیں تیری یہ انا کہ خدا دیکھ رہا ہے
ضمير احمد
کسی کا بھی دل نہ دکھا کہ خدا دیکھ رہا ہے
کچھ نہیں ہے اسی سے چھپا کہ خدا دیکھ رہا ہے
کھالی ھاتھ آیا تھا کھالی ھاتھ جاٸیگا تو
خود کو اتنا معتبر نہ بنا کہ خدا دیکھ رہا ہے
حوا کی بیٹی بنی ہے آج تیرے لیے کھلونا
اپنے ہی خون کو کھلونا نہ بنا کہ خدا دیکھ رہا ہے
جب کچھ نہ تھا تو مفلسی جب سب ملا تو ظلمت
آدم کے بیٹے آدم ذات کو نہ ستا کہ خدا دیکھ رہا ہے
زندگی گزار مت زندگی میں سیکھ لے تھوڑا جینا
بھلاٸی کر تیرا بھی ھوگا بھلا کہ خدا دیکھ رہا ہے
نفرت کی زنجیریں توڑ کہ محبت ہے تیری فطرت
نفرت کی آگ میں خود نہ جلا کہ خدا دیکھ رہا ہے
اشرف المخلوقات خدا نے کیا ہے تیرا رتبہ بلند
رتبہ دیکھ خود کو انسان بنا کہ خدا دیکھ رہا ہے
کر کے آٸے تھے جو وعدہ تم خدا کے روبرو
اپنے وعدے کو اب یوں نہ بھلا کہ خدا دیکھ رہا ہے
سجدہ ایسا کر کہ سجدے میں خدا کو دیکھ
ورنہ خود کو تو اتنا بتا کہ خدا دیکھ رہا ہے
مٹی سے بنا ہے تو آخر مٹی ہی بن جاٸیگا ”ضمیر“
کسی کام کی نہیں تیری یہ انا کہ خدا دیکھ رہا ہے
ضمير احمد
Comments
Post a Comment